اب دواَ ہو یا دعا ، اِس سے بھلا کیا ہوگا
درد کچھ اور بڑھے گا تو اِفاقہ ہوگا
گر نہ بدلے ترِے حالات تو اے شہرِ دل
تیری گلیوں میں بہت خون خرابہ ہوگا
ایک وہ بات جسے ہم نہ کبھی کہہ پائے
دیکھ لیجئے گا اُسی بات کا چرچا ہوگا
اب تو حد یہ ہے کہ تنگ آکے بھنور پوچھتا ہے
کچھ تو فرمائیے کب پار یہ دریا ہوگا
مجھکو خود اپنے بدلنے پہ یقیں ہے، لیکن
دل یہ کہتا ہے کہ وہ شخص نہ بدلا ہو گا
یہ تو سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی میری طرح
وہ بھی محفل میں کسی میز پہ تنہا ہوگا
مجھکو معلوم ہے انور ترِے نقلی پنَ میں
فرق ہوگا بھی اگر کچھ تو ذرا سا ہوگا