اس حسن بے نیاز کا جلوہ دکھا ہی دو
اے جان میری جان کی قیمت لگا ہی دو
مدت سے گیت ہے جو تکلف کی قید میں
اب دل سے دل ملا کے اسے گنگنا ہی دو
رقصاں ہیں میرے شہر میں تخریب کے سائے
دھیرے سے یہاں پیار کی کلیاں کھلا ہی دو
کب تک فقط خیال کی پکڑوں گا تتلیاں
کچھ روز تمنا کو حقیقت دکھا ہی دو
آتے سمے کے خوف سے نادان ہیں لرزاں
کلیوں کو ذرا دو گھڑی اپنی ادا ہی دو
کب سے ہیں انتظار میں لمحے نشاط کے
دل کی وہ ایک بات چمن کو بتا ہی دو
جس بام سے آتی رہیں بے لوث الفتیں
بہتر ہے اب جبین کو اس پر جھکا ہی دو
کھو جائے جس میں ذات کی ہر انفرادیت
اس راز طلسمات سے پردہ اٹھا ہی دو
آتا ہے اس میں تیرے رویوں کا ذکر بھی
اس دور کی ہر یاد کو دل سے بھلا ہی دو
وہ بدلیوں کی اوٹ میں شرما رہا ہے چاند
اب ریشمی رخسار سے زلفیں ہٹا ہی دو