یوں تو امکاں نہیں محبت کا
کوئی کیا کر لے دل کی عادت کا
زخمِ جاں کا علاج مت کیجیو
میں تو رسیا ہوں اس اذیت کا
کاش تو دل میں جھانک کر دیکھے
لفظ کافی نہیں محبت کا
اب تو دھڑکن بھی سوچ کر بولے
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
دل بھی کھوٹا زبان بھی پھیکی
رابطہ ہے فقط مروت کا
ایک خالی مکان میرا وجود
منتظر ہے تری سکونت کا
کل کی کس کو خبر کہاں ہوں ہم
ہے غنیمت یہ وقت قربت کا