بتایا جائے نہ مدعا ۔ نہ دبایا جائے
آئینے سے کہاں تک عکس چھپایا جائے
ایک نہ ایک دن لفظوں میں چھلک آتا ہے
کب تلک خون کو گردش میں گھمایا جائے
ہزاروں پھول نگاہوں کو بھلے لگتے ہیں
دل کا افسانہ بھی کس کس کو سنایا جائے
میں اشک بن کے تیرے دل سے نکل آیا ہوں
اب مجھے لرزتی پلکوں سے گرایا جائے
میں سنگ راہ ہوں تو ٹھوکر کا سزاوار سہی
میں درد دل ہوں تو سینے سے لگایا جائے
میں ذرا اور روشنی کو منعکس کر لوں
مجھے کچھ دیر دھنک سے نہ چرایا جائے
اپنے حصے کی بہاروں سے کہیں بہتر ہے
تیرے دامن کو شراروں سے بچایا جائے
میں اپنی ذات کی تشہیر سے گریزاں ہوں
میرے افکار کو سرخی نہ بنایا جائے
تمہارے عشق نے ہمت مجھے عطا کی ہے
مجھے اب شوق سے سولی پہ چڑھایا جائے