بہت تھا آپکو بھی چاؤ جناب
اب محبت ذرا نبھاؤ جناب
نکلے ہو تو جان بھی لو گے
بکتی ہے آرزو کس بھاؤ جناب
آنے والا ہے کوئی شب دیدہ
روپ کی وادیاں سجاؤ جناب
ہم بھی کچھ آسرے پہ بیٹھے ہیں
پیار سے ہم کو بھی بلاؤ جناب
یاد کی ٹہنیاں سلگنے لگیں
داستاں ایسے نہ سناؤ جناب
پہلے کیا حشر کم ہیں دنیا میں
اشک نہ اس قدر گراؤ جناب
اب کہاں جا رہے ہو مستی میں
دیکھ لو روح کا بہاؤ جناب
لوٹ کے آؤ گے میرے ہی پاس
جانا چاہو تو چلے جاؤ جناب
چیختی رہ ہی جائیں شریانیں
خون کو اس طرح گھماؤ جناب
کب سے اوڑھے خزاں کو بیٹھا ہوں
پھول چپکے سے کچھ کھلاؤ جناب
کام ہیں اور بھی الفت کے سوا
ہر سمے ایسے نہ ستاؤ جناب
دل کہاں سب کیلئے کھلتا ہے
تم تو مالک ہو چلے آؤ جناب