اب وہ نہیں یا ہم نہیں
Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Hustonخیالوں سے جاتے نہیں ملاقات کے لیے آتے نہیں
بات بنائے بنتی نہیں گفتگو کے آثار نظر آتے نہیں
ایک ہی ڈگر کے مسا فر آتے جا تے ٹکرائیں
آنکھیں چار ہوتی ہیں مگر پہچان کے آثار نظر آتے نہیں
ایک ہی چھت کے نیچے یوں بیٹھے اجڑے اجڑے
کریں دیواروں سےباتیں زباں پہ انکی کلام آتے نہیں
ہاتھ بڑھایا ہم نے انکی جانب دوستی کے لیے
اک وہ کہ ہاتھ تھامتے ہم کو نظر آتے نہیں
یوں تو پہنچی اپنی بھی خبر ان تلک ناسازی کی
ہیں مسیحا پر بھولے سے بھی عیادت کے لیے آتے نہیں
گو دیوانےنہیں مگر آدابِ عشق سے بے بہرہ ہیں
قصور نگاہوں کا انکی کہ ہم ان کو نظر آ تے نہیں
اک امید نظرآتی ہے رہتےہیں تنہا گھر اپنا بساتے نہیں
ہے ٹھان رکھا ہم نےبھی عشق میں اب وہ نہیں یا ہم نہیں
More Love / Romantic Poetry






