جو تھا کہیں میرا دیوانہ مستانہ
اب وہ ہوگیا ہے مجھ سے بیگانہ
جسے سمجھتا تھا میں ہر پل اپنا
ایک ہی پل میں کر گیا مجھے بیگانہ
جس نے سکھائے تھے مجھے آداب محبت
محبت نام سے اب وہ ہے بیگانہ
ہوتا تھا جس کےلیے میں پروانہ
وہ چراغ ہو کر بجھ گیا بیگانہ
کرتا ہے اب وہ مجھ سے ملنے کے جھوٹے وعدے
جاتا ہے غیروں میں وہ ہو کر مجھ سے بیگانہ
چھوڑ دے تو اس پتھر کو عمران
جو تراشے سے بھی ہوتا ہے بیگانھ