اب کوئی یاد بھی آتا ہے تو ایسے جیسے
بے خیالی میں کوئی آنکھ سے گزرے جیسے
غیر محسوس سے لگتے ہیں سبھی لوگ یہاں
پردہِ سیمیں پہ سایوں کے تماشے جیسے
چند رشتوں کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ڈوبتا چاند ستاروں کو سمیٹے جیسے
درد سے جی ہے بھرا سانس ہے بوجھل بوجھل
آخری بار کوئی دیس سے پلٹے جیسے
یوں لپیٹا ہے تجھے ہار کے جیون سارا
جانے والا کوئی بستر کو لپیٹے جیسے
اپنے اب غیر سے لگتے ہیں غیر اپنے سے
میں ہوا غیر کہ اب غیر ہیں میرے جیسے
لا تعلق سا ہوا جاتا ہوں سب چیزوں سے
بوڑھا سورج ہو ذرا شام سے پہلے جیسے