اب کوں ہے جو شہر میں قاتل نہیں رہا
ہم راز بھی یقین کے قابل نہیں رہا
یہ بات اور، آج وہ دھنوان بن گیا
کل رہزنوں کے ساتھ وہ شامل نہیں رہا
دُولت خرید لیتی ہے منصف کا فیصلہ
قاتل جو تھا وہ دیکھ لو قاتل نہیں رہا
اک دوستی کی آڑ میں کھایا ہےاس نے زخم
وہ جب سے ہی دوستی قائل نہیں رہا
بضم حیات میں بڑے سہمے ہوئے ہیں لوگ
اک چہرہ بھی خوشی سے یہاں کھل نہیں رہا
اب حال دل حیات ہے کچھ یوں بقول اسدَ
جسں دل پہ ناز تھا ہمیں وہ دل نہیں رہا