اب کہ اُٹھتا ہوا شعلوں سے دھنواں پکڑیں گے
کیا ہے اس آگ کے پردے میں نہاں پکڑیں گے
پھر بھی چھوڑو گے کہاں اُس کی گلی تُم جانا
شوق آوارہ جو قدموں کے نشاں پکڑیں گے
اب کہ پابند سلاسل نہیں بس شہر کے بیچ
آہ روکیں گے مری اور فغاں پکڑیں گے
اتنا مُشکل بھی نہیں خواب حقیقت کرنا
ہاتھ آ جائے یقیں ایسے گماں پکڑیں گے
ہاتھ لمبے تو ہیں، پر آپ کے سو ہاتھ کہاں
بولنے دیجئے، کس کس کی زباں پکڑیں گے
حاصل عشق مرا جو بھی ہوا اب اظہر
سود ممنوع ہے، سودے میں زیاں پکڑیں گے