اب کے آؤ گے جانا ں !
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar, Jalal Pur Jattan, Gujratاب کے آؤ گے جانا ں
تو دور نہ جانے دیں گے تجھے
کہ اپنی ہر سانس میں بسا لیں گے
تو آئے گا تو سنواریں گے خود کو
روپ مہکے گا میرا تیرے لمس کی شدت سے
بہت پیا ر سے سنبھالیں گے تجھ کو خود میں
جیسے کے صنم کا پہلو اور گلاب
دل کے رخسار پر تیری سانسوں کی خوشبو اُتار لیں گے
تو آبھی جا اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ میرا ہر لمحہ بس تیر ا ہی ہونا چاہتا ہے
تیرے انتظار میں یہ سرد شامیں گزر نہ جا ئیں کہیں
میرے ٹھٹھرتے ہا تھ تیرے ہا تھو ں کی حدت چاہتے ہیں
میں جان چکی ہو ں تو ہے درخشاں حیات میری
تیری صورت خزاں کو ٹال رکھے گی
عالمِ بہار کو زندہ رکھے گا وجود تیرا
تو جو آن ملے اک بار ۔۔۔۔۔۔۔
میری تقدیر سنور جائے گی
تجھے خود میں یو ں پیوند کر لوں گی
کہ جیسے ریشم، اطلس اور کمخواب میں بُنے ہوئے لفظ
تم آجاؤ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتلائیں گے تجھ کو
کہ فقط تجھ کو ہی چاہا ہے،تجھی کو پوجا ہے
میرے واسطے تیری دلکش آنکھوں کے سوادنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو آن ملے تو پھر جنت کی طلب کیا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






