اب کے برس ساون ہار گئے رے
Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Huston گئے برس وعدہ کیا رے مورے بلما نے
پر آۓ نہ ساون میں اب کے برس بلما رے
تم بن رین نہ آۓ موہے چین رے
ہاے یہ ساون کیسا رے آے نہ بلما رے
رم جھم موری اکھیا ں بن گئيں ساگر رے
برس برس ہوگئ بن بادل برسات رے
چھم چھم تیری یاد میں برس گۓ مورے نینا رے
اب کے برس اب کے برس ساون ہار گۓ رے
میگھ نہ ملہار نہ پربت پہ چھاۓ ابر
جگنی نہ راگنی نہ ا مبر پہ آئ بد لی رے
ٹھمری نہ مدھرا نہ باجے پایئل پگ میں
نہ گاؤ سکھیو ساون کے گیت رے
رم جھم موری اکھیاں بن گئ ساگر رے
برس برس ہوگئ بن بادل برسات رے
چھم چھم تیری یاد میں برس گۓ مورے نینارے
اب کےبرس اب کے برس ساون ہار گۓ رے
گھاٹ نہ گگریا نہ بولے کوی پپیہا رے
من میں سماۓ لگن کاہے سجن روٹھے رے
چھوڑ گۓ منجھدار میں ہاے یہ کیسی ریکھا رے
جا رے بلم ہو گیا تیرا وعدہ جھوٹا رے
رم جھم موری اکھیاں بن گئ ساگر رے
برس برس ہوگئ بن بادل برسات رے
چھم چھم تیری یاد میں برس گۓ مورے نینا رے
اب کے برس اب کےبرس ساون ہار گۓ رے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






