ابتدا کی ہر نظر تو کتنی غمگین ٹھہرتی ہے
ہم نے پالی جو صدا یہ بڑی سنگین ٹھہرتی ہے
فصاحت میں اتنے بیشمار پہلوُ کہاں سے آئے
اپنے بیاں میں تو ہمیشہ تسکین ٹھہرتی ہے
امیدوں کا الم لیئے دوڑتے ہیں دن بھر سبھی
ہاں ایک یاد ہر رات کیسے رنگین ٹھہرتی ہے
خیالوں کے بادل کو آشیانہ نہ ملا آج تک
پھر بھی ہمارے پاؤں تلے یہ زمین ٹھہرتی ہے
اندر کتنا معطر کسی نے بھی نہیں دیکھا
آس پاس جستجوُ کہ کوئی شمیم ٹھہرتی ہے
قول و فعل کی ہیں الگ الگ بستیاں سنتوشؔ
ہمارے عہد میں روز ایک ترمیم ٹھہرتی ہے