ابتداء کہاں سے کہاں انتہاء ہوئی
نہ پوچھ کون جیتا کسے سزا ہوئی
محبتوں کا شہر اجڑا کس طرح
بغاوتیں تھی کس کی کس سے خطا ہوئی
تسلسل سا رہا میری وفاؤں میں بھی
اس کی بھی کبھی کم نہ جفا ہوئی
وہ جانتا بھی نہیں آداب ء رفوگری
حیراں ہوں اس کی دید میری دواء ہوئی
وقت کی دھول نے دھندلا دیا ہو شاید
یاد سے تیری کہاں فراغت بھلا ہوئی
ہم تو برسر ء الزام ہی سہی
تو بتا تجھ سے کیا نبھا ہوئی
بھکاری بن کے تیرے شہر میں ستم گر
کئی بار دربدر محبت رسوا ہوئی
روبرو ہوا جب عشق کے جنوں
عنبر لگا مجھے مقبول دعا ہوئی