اپنے کئے پہ ہم ہیں پشیماں ابھی بہت
پھر بھی ہے ان کو ہم سے محبت ابھی بہت
یہ نفرتیں، یہ دوریاں، یہ زنجیر محبت
درکار ہے خاطر سمجھ کی وقت ابھی بہت
روشنی کی اک کرن امید کیا بڑھاۓ گی
اس زندگانی میں ہیں اندھیرے ابھی بہت
یہ شمع تمام رات گزارے گی کس طرح
یہ جل بھی چکی اور رات پڑی ہے ابھی بہت
اشکوں نے بنا ڈالے سمندر ہی سمندر
پھر بھی ہیں ان آنکھوں میں آنسو ابھی بہت
کیوں رو رہی اے شمع اس ایک پروانے کے لئے
موجود ہیں جلنے کے لئے پروانے ابھی بہت
کیوں چاند منہ چھپاتے ہو تم بادلوں میں اپنا
تمھیں چاہنے والے یہاں ہیں ابھی بہت