ابھی تنہا، افق کے پار ساری رات تکتا تھا
ستاروں سے شکایت ہوگئی تو کیا یہ اچھا تھا
ابھی چاہت گنوا دینے کی ضد تم کو ہے شدت سے
اگر پانے کی حسرت ہوگئی تو کیا ہی برا تھا
میں انسانوں کی تکلیفوں پہ روتا اور سسکتا ہوں
محبت کا بھی اک غم ہے جسے چپ چاپ سہتا تھا
خلوص و پیار کے نغمات گائے ہیں ہمیشہ ہی
مگر ان کے صلے میں غم بہت ہی اٹھانا تھا
محبت کا یہاں بدلہ تو بس نفرت ہی پایا ہے
ملے ہیں خار جب بھی پھول الفت کا کھلایا تھا
یہ سب سچ ہے مگر مایوس اب تک میں نہ ہو پایا
امنگوں کا ترانہ دوستو ! ہر دور گایا تھا
بہت عاجز ہوں مجھ کو طنز کرنا ہی نہیں آتا
تکبر میں کسی سے بات کرنا یہ نہیں بھاتا تھا