ابھی تو صرف اقتباس پڑھا ہے
ابھی تو پوری داستاں باقی ہے
ابھی تو گننے رہتے ہیں تارے
ابھی تو سارا آسماں باقی ہے
ابھی تو کٹنی ہیں راتیں کئی
ابھی تو ہجر کا زماں باقی ہے
ابھی تو ملگجا سا ہے اندھیرا
ابھی تو صبح کا نشاں باقی ہے
ابھی تو قلم میں بھری روشنائی
ابھی تو زندگی کا فساں باقی ہے
ابھی تو رتییں ہیں بدلیوں کی
ابھی تو ابرو باراں باقی ہے
ابھی تو ہے سودا دلوں کا ہوا
ابھی تو بدن میں جاں باقی ہے
ابھی تو سجنا سنورنا ہے مجھے
ابھی تو سجن کا پیماں باقی ہے
ابھی تو سہنا ہے درد و الم درشہوار
ابھی تو عشق کا امتحاں باقی ہے