ابھی خاموش رہنے دو ابھی مدہوش رہنے دو
مجھے ہر بات دل کی تم نگاہوں سے ہی کہنے دو
میں اک پتھرکی مورت کی طرح کب تک تجھے دیکھوں
مجھے تم آج جذبوں کے تلاطم میں بھی بہنے دو
ترنم بھی اگر پھوٹا تو سانسیں کانپ جائیں گی
مرے لب پہ ذرا تم اپنے لب کچھ دیر رہنے دو
بچھڑنے اور ملنے سے نئے موسم بھی بنتے ہیں
میری آغوش میں ان موسموں کو قید رہنے دو
گلابوں کی طرح تم مسکراؤ باغِ ہستی میں
مگر تم زخمِ دل کی ہر کسک مجھ کو ہی سہنے دو