ابھی کچھ باقی ہی سہی
چھپی بے تابی ہی سہی
درس سے نوازا مجھ کو
درس گر پاپی ہی سہی
رحمان ضیمر دیکھتا ہے
نشہ مصر حافی ہی سہی
ہاں تو ناٸب خدا ہے انساں
حکم تو عطاٸی ہی سہی
ستر کا مطلب بے شمار ہے
ہاۓ میں داغی ہی سہی
فانی ہے دنیا اور میں
اس سے باغی ہی سہی
اور تو خیرات کیا کر بس
ہاں وہ حجابی ہی سہی
عمر کو فکر کے حوالے کر
بچی جو باقی ہی سہی
مجھ کو خاک سے محبت ہے
ہاں ہم خاکی ہی سہی