ابھی کچھ دیر تو ٹھہرو
ابھی نہ چھوڑ کر جاؤ
ابھی قلب و نظر نے
دیدہ ودل نے
تمہارے وصل کی شبنم سے
ساون رت کے سبزے کیطرح شاداب ہونا ہے
جھلستی روح کی بنجر زمینوں
اور دراڑوں میں بٹی مٹی نے
رچنا کے دوآبوں کیطرح سیراب ہونا ہے
ابھی موسم بدلنے ہیں
ابھی تو پھول کھلنے ہیں
ابھی تو موسم گل کے سفیروں نے
تجھے ملنے کو آنا ہے
ابھی تو شوح سکھیوں کو
تیرا پیکر دکھانا ہے
ابھی ان کو بتانا ہے
میرا دلدار آیا
میرا غمخوار آیا ہے
ابھی وعدوں ارادوں کی
نئی تشکیل کرنا ہے
محبت کے ادھورے کام کی تکمیل کرنا ہے
ابھی تو فرقتوں کے جان لیوا زخم بھرنے ہیں
محنت کے سبھی منظر تمہارے نام کرنے ہیں
بہت سے کام کرنے ہیں
ابھی وعدہ نبھانا ہے
خدانخواستہ ہم
تیز آندھی میں جدا ہوتے پرندوں کیطرح
گر بچھڑ بھی جائیں
تو واپس آشیاں میں لوٹ آنا ہے
نیا آنگن بسانا ہے
ہمیں اک دوسرے کے دل پہ رکھ کے ہاتھ
پھر سے عہد کرنا ہے
حالات و واقعات شہر کی کیسی بھی صورت ہو
ہمیں اک ساتھ جینا
ہمیں اک ساتھ مرنا ہے
ابھی کچھ دیر تو ٹھہرو
ابھی نہ چھوڑ کر جاؤ