اتنے سہاروں میں رہکر بھی پناہی ڈھونڈتا تھا
تیری ساتھ وہ شخص اکثر تنہاہی ڈھونڈتا تھا
کَم سُخَنی تو پاس سائے کی طرح رہی
شاید جیون کی کوئی تباہی ڈھونڈتا تھا
اُس کے حال بھی کہیں بے حال نہ دکھے
اپنے خیال میں خاموش خدائی ڈھونڈتا تھا
شکوہ گذاری سے دل بھر گیا تھا کہیں
جو جہاں میں ہر طرف ثنائی ڈھونڈتا تھا
یہ سچ کہ اُسے لگن سے بڑی لگن تھی
مگر وہ اسی لگن میں فنائی ڈھونڈتا تھا
تجھے اس کے دکھ پہ کوئی دکھ نہ تھا ورنہ
کون ہے وہ سنتوشؔ جو جدائی ڈھونڈتا تھا