اثر ہی اس پہ مرے آنسوؤں کا کیا ہو گا
بے حس ہے اتنا کہ ان پر بھی ہنس رہا ہو گا
منافقت سے جو لیتا نہیں ہے کام کبھی
زباں کا سخت سہی آدمی کھرا ہوگا
جسے برا نہ کوئی اس کے منہ پہ کہہ پائے
مشاہدہ ہے وہ بندہ بہت برا ہو گا
سنا ہے دوست مصیبت میں کام آتے ہیں
عدو کا شیوہ اگر یہ ہو دوست کیا ہو گا
خبر نہ تھی کہ مراسم میں یوں بھی ہو گا کبھی
قریب رہ کے بھی صدیوں کا فاصلہ ہو گا
کسی سے کچھ نہ کہو دل پہ جو گزرتی ہے
زباں کا ہلنا تمھارے لیے سزا ہو گا
جو بات راز تھی اب راز نہ رہی زاہد
مرا رفیق ہی دشمن سے جا ملا ہو گا