Add Poetry

اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک

Poet: صبا اکبرآبادی By: ساجد ہمید, Islamabad

اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک
مقدر میں ہے یا رب آرزوئے خود کشی کب تک

تڑپنے پر ہمارے آپ روکیں گے ہنسی کب تک
یہ ماتھے کی شکن کب تک یہ ابرو کی کجی کب تک

کرن پھوٹی افق پر آفتاب صبح محشر کی
سنائے جاؤ اپنی داستان زندگی کب تک

دیار عشق میں اک قلب سوزاں چھوڑ آئے تھے
جلائی تھی جو ہم نے شمع رستے میں جلی کب تک

جو تم پردہ اٹھا دیتے تو آنکھیں بند ہو جاتیں
تجلی سامنے آتی تو دنیا دیکھتی کب تک

تہ گرداب کی بھی فکر کر اے ڈوبنے والے
نظر آتی رہے گی ساحلوں کی روشنی کب تک

کبھی تو زندگی خود بھی علاج زندگی کرتی
اجل کرتی رہے درمان درد زندگی کب تک

وہ دن نزدیک ہیں جب آدمی شیطاں سے کھیلے گا
کھلونا بن کے شیطاں کا رہے گا آدمی کب تک

کبھی تو یہ فساد‌ ذہن کی دیوار ٹوٹے گی
ارے آخر یہ فرق خواجگی و بندگی کب تک

دیار عشق میں پہچاننے والے نہیں ملتے
الٰہی میں رہوں اپنے وطن میں اجنبی کب تک

مخاطب کر کے اپنے دل کو کہنا ہو تو کچھ کہیے
صباؔ اس بے وفا کے آسرے پر شاعری کب تک

Rate it:
Views: 494
15 Feb, 2022
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets