اجنبی ہے کہ شناسا ہے
عجب شخص ہے وہ
میری نیندوں میرے خوابوں میں چلا آتا ہے
مسکراتا ہے تو
پھر دل میں مرے پھول سے کھل اٹھتے ہیں
اپنی باہوں کے مدھر گھیرے میں لے کر مجھ کو
روز لے جاتا ہے ساتھ اپنے کہیں
ایک دریا کا کنارہ ہے
حسیں وادی ہے
اور اس وادی میں
اک پیڑ کے مضبوط تنے کا وہ سہارا لے کر
ہاتھ باندھے ہوئے سینے پہ
کہیں دور نکل جاتا ہے
اس کا دعویٰ ہے کہ اس بوڑھے شجر کے نیچے
میں نے اس سے کبھی پیمان وفا باندھا تھا
اجنبی ہے کہ شناسا ہے
عجب شخص ہے وہ
اس کے لفظوں میں ہے وہ سحر
کہ میں خود کو بھلا دیتی ہوں
میری نس نس میں محبت کے کنول کھلتے ہیں
ایسا لگتا ہے وہ شامل ہے مری سانسوں میں
اور اب اس کی محبت میرا سرمایہ ہے
آج جب آئے گا وہ خواب میں میرے تو میں
اس کی سانسوں میں بسوں گی اسے اپنا لوں گی