اجنبی سے لوگ ہیں اور اجنبی سی رات ہے
میں اکیلا تو نہیں تنہائی میرے ساتھ ہے
راستے بھی اجنبی ہیں منزلیں بھی اجنبی
کیا ہوا جو میں یہاں ہوں دل تو ان کے پاس ہے
ریت کے ذرے ہواؤں سے گلے ملنے لگے
تو لگا ایسا کہ ان کی یادوں کی بارات ہے
ان کے ملنے کی خبر پائی تو دل نے یوں کہا
او دیوانے کیا ہوا ہے ایسی بھی کیا بات ہے
آشیاں جلنے کا شکوہ کوئی کس سے کیا کرے
خود امیر شہر ہی تو دشمنوں کے ساتھ ہے
مجھ سے مت پوچھو کہ میری ذات کے زیروزبر
میں فقط انسان ہوں نہ ذات ہے نہ پات ہے
اور بھی اک زخم خالد مل گیا تو کیا ہوا
غم نہ کرنا یہ تو ان کے پیار کی سوغات ہے