شعر جو ہو جائے تو کچھ وقت گزر جائے گا
ورنہ تو اس شہر میں یہ اجنبی مر جائے گا
میں اپنی آنکھوں میں جو خواب سجائے ہیں
میرا جیون انہی خوابوں میں سنور جائے گا
جانے کس راہ پہ چلتے چلتے منزل مل جائے
بس یہی سوچتے سوچتے وقت گزر جائے گا
ہم بھی اس کے وعدے پہ اعتبار نہ کرتے
گر ہمیں معلوم ہوتا وہ بھی مکر جائے گا
آج بھی یہ سوچ کر اس راہ پہ چلتا ہوں میں
مجھ کو یقیں ہے ایک دن وہ بھی ادھر آئے گا
عظمٰی کبھی یہ زندگی سمندر کے حوالے تو کرو
موجوں سے الجھتا ہوا بیڑہ ایک دن تر جائے گا