اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی ۔۔ گیت
Poet: Dr.Zahid sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanغموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی
ہے پیار اس کا حقیقت یہ مانتا ہوں میں
اسے قرار نہیں یہ بھی جانتا ہوں میں
وہ میرے پیار میں ہر چیز کھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
رہے گا اس کو مرا انتظار صبح تلک
کرے گی بند نہ شب بھر وہ ایک لمحہ پلک
تھکی تھکی سی مگر دن کو سو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
نئی وفا، نئی الفت میں کھو نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو کبھی اس کا ہو نہیں سکتا
وہ پھر بھی پیار کے موتی پرو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
یہ وقت چپکے ہی چپکے گزرتا جائے گا
مگر یہ راز کوئی بھی نہ جان پائے گا
کہ پیار میں کبھی برباد وہ رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں سو رہی ہو گی
غموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






