حدیثِ یار بیاں ہم جو کرنے لگتے ہیں
اداس شام کے گیسو سنورنے لگتے ہیں
جہانِ فکر میں امکان ڈھونڈتے اکثر
سخن کے نت نئے پہلو ابھرنے لگتے ہیں
تمھارے قُرب کی حدت سے مثلِ قوسِ قزح
مرے مزاج کے موسم بدلنے لگتے ہیں
اسے ہنر کہو یا شعبدہ حسینوں کا
خیال بن کے یہ دل میں اترنے لگتے ہیں
ہم ایک دل نہ ترا موم کر سکے ، ورنہ
ہماری دید سے پتھر پگھلنےلگتے ہیں
کھلیں ہوں کھڑکیاں گھر کی سجے ہوں پھول جہاں
وہاں سے منچلے بھنورے گزرنے لگتے ہیں
سوال کرنے سے بچوں کو روک کر اکثر
ہم ان کی سوچ کے خود پر کترنے لگتے ہیں
یہ انتہائے محبت ہے یا کہ پاگل پن
ہنسیں بھی اب تو آنسو نکلنے لگتے ہیں
ملے ہیں اُن سے ، بہت ہی عزیز ہیں ہم کو
کرید لیتے ہیں جب زخم بھرنے لگتے ہیں
غمِ جہاں کے عذابوں کو جھیلتے خورشید
مرے وجود کے بخیے ادھڑنے لگتے ہیں