دیکھا جو حسن یار تو اداسی کے دن گئے
چھایا آنکھوں میں خمار تو اداسی کے دن گئے
اسکے سحر کی رنگینیاں چھائیں تھیں ہر طرف
یوں بڑھتا گیا غبار تو اداسی کے دن گئے
سمٹتا رھا وہ حسن فضاؤں میں اس طرح
کہ چہرے پہ آئی بہار تو اداسی کے دن گئے
دھندلا گیا ھے آئینہ کہ تھا عکس میں غرور
ھوا عشق کا کاروبار تو اداسی کے دن گئے
تھے شام کی خموشی میں چھپے ملن کے سرور
پھر رات ھوئی جو بیدار تو اداسی کے دن گئے