رُخَ روشن پہ کالا نقاب، کیا کہنے
بولے تو لہجہ لاجواب، کیا کہنے
شب بھر اپنے پہلو میں بٹھائے رکھوں اُسے
پھر بھی لگے ادھورا ہے خواب، کیا کہنے
حسن و جوانی رنگ و رعنائی میں کمال ایسا
کہ بوڑھا بھی دیکھے تو مانگے شباب، کیا کہنے
اُسی کو دیکھنے آتے ہیں یہ شب و روز
یہ چاند یہ تارے یہ آفتاب، کیا کہنے
اک روز جو بل کھاتی کمر کے ساتھ
آئی میرے پاس اور بولی آداب، کیا کہنے