ادھورا خواب ہوں تعبیر سے پورا نھیں ہوتا
مرا یہ شعر تو اب میر سے پورا نھیں ہوتا
میں باتیں کر تو لیتا ہوں،میں باتیں سن نہیں سکتا
جو مطلب تم سے ہے تصویر سے پورا نھیں ہوتا
وہ کن کہ دے تو اک لمحے میں فیکون ہو جائے
میں کیسے سوچ لوں تقدیر سے پورا نھیں ہوتا
دلوں کو جیتنا چاہو تو پہلے خود کو بدلو تم
ادھورا آدمی شمشیر سے پورا نھیں ہوتا
جسے میں کل پہ چھوڑوں وہ ہمیشہ نا مکمل ہے
کوئی بھی کام اب تاخیر سے پورا نھیں ہوتا
مثالیں روپ کی ویسے تو لوگوں نے بہت دی ہیں
یہ تیرا روپ تو تفسیر سے پورا نھیں ہوتا
وراثت میں مجھے خوشیاں بھی لینا ہوں گی اب آرب
میرا حق عشق کی جاگیر سے پورا نھیں ہوتا