اردو شاعری محبت
Poet: طالب دہلوی By: ہارون فضیل, Karachiمحبت جلوۂ رخسار بھی ہے
محبت کاکل خم دار بھی ہے
تجلی مانع دیدار بھی ہے
نظر کی راہ میں دیوار بھی ہے
وہ سادہ ہی نہیں پرکار بھی ہے
بکار خویش جو ہشیار بھی ہے
بشر دانا بھی ہے ہشیار بھی ہے
مگر مست مئے پندار بھی ہے
محبت مانع اظہار بھی ہے
محبت مائل گفتار بھی ہے
مری تسخیر دل میں کار فرما
تری شیرینئ گفتار بھی ہے
بشر پر ہیں جہاں پابندیاں اور
اسیر سبحہ و زنار بھی ہے
زمانہ صلح دشمن ہے ازل سے
زمانہ برسر پیکار بھی ہے
شفق میں گل میں جام ارغواں میں
مری رنگینیٔ اشعار بھی ہے
محبت کا مزہ کیا پوچھتے ہو
محبت پیار بھی تکرار بھی ہے
فریب خامشی بھی دل نے کھایا
ہلاک شوخیٔ گفتار بھی ہے
جسے کہتے ہیں سب دنیا میں جینا
بہت آساں بہت دشوار بھی ہے
جو نیکی کر کے دریا برد کر دے
کہیں وہ صاحب ایثار بھی ہے
تمنا سربلندی کی تو برحق
مگر کچھ جوہر کردار بھی ہے
جہاں ہیں اور اسباب تنزل
ہماری پستیٔ معیار بھی ہے
اسے مجموعۂ اضداد کہیے
بشر مجبور بھی مختار بھی ہے
وہی انساں جو ہے غفلت پہ مائل
رہین جذبۂ بیدار بھی ہے
ادب کو استقامت بخشنے میں
مری برنائی افکار بھی ہے
اسے شعلہ بھی کہیے یہ ہے شبنم
محبت نور بھی ہے نار بھی ہے
تمہاری منتظر مدت سے طالبؔ
چمن میں نرگس بیمار بھی ہے






