از خاک نشیں کے دامن توُ کاش دل کے قریب ہوتا
ہم احساس دل اعزاز کرتے اور درد رکھتے خود مجبوُر کیلئے
آج بھی حسرتوں کے آغاز میں افسردگی کا طوفان مل گیا
پلکوں کو کبھی نیند نہ چبھی اُس حسن مغروُر کیلئے
مقدس حکایتیں اور بھی تھی کوئی اپنا ہوتا تو کہہ بھی دیتے
ہر نظارہ یہ کہتا ہے کہ ہم تخلیق ہوتے بھی دورُ کیلئے
تھے وفا کے عادی تو مشقت کی قیمت ہی نہ مل سکی
کبھی یہ بھی نہ سوچا کہ اب کہ بدلیں زمانہ دستوُر کیلئے
وہ اپنی رنجشوں سے زندگی تنگ کر بیٹھے تو کہدیا
تمہاری حیات ہم جیئیں گے اور اگلا جنم بھی حضوُر کیلئے
ہم نے زباں پہ جو مہر لگادی تو ہر رات اماوس ہوگئی
شاید کچھ لوگ جیتے ہیں عشق جرم عبوُر کیلئے