ازل سے وہم ہے کیسا عجیب لوگوں کو
کہ پیار ملتا ہے بس خوشنصیب لوگوں کو
تو میرے بازو پہ سر رکھ کے یار سویا کر
جلائیں ہم بھی تو کچھ کچھ رقیب لوگوں کو
ستم گری کے سبھی گر تمھیں سکھا دیں گے
نہ آنے دینا کبھی بھی قریب لوگوں کو
مرض کہیں بھی کسی کی بھی جاں نہیں لیتا
یہ مار دیتے ہیں اکثر طبیب لوگوں کو
بھلا میں ان کو جو ٹوکوں تو ٹوکوں کس منہہ سے
کہ خود سے ملنے جو جاۓ حبیب لوگوں کو
شعور کیسے زمانے میں آۓ گا باقرؔ
کہ نفرتیں جو سکھائیں خطبیب لوگوں کو