اس ابتسام کی ہواؤں سے زخم ملے گا
حسُن کی رنگینیوں سے تو بھرم ملے گا
فضاؤں کے فساد میں ریت پہ نام لکھ دیا
پھر کیا سوچنا کہ درز کو مرہم ملے گا
کسی تشخیص نگاہ سے بھٹکے مسافر کو
شاید مفروضہ ان راہوں میں عزم ملے گا
اک عاشقی کے بدلے تنہائی مل گئی
حسرت یہ بھی تھے کہ بزم ملے گا
اُس ادا کی ضیافت نے بخشش چھوڑدی
کہ میری زیارت میں ہر بار ستم ملے گا
دنیا نے کتنی اظہار دروغی پھیلادی
کہ میرے وشواس کو بھی نہ انتم ملے گا