اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہے دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہے دوستو
ی اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنھائیوں کا زہر ہے اور ہم ہے دوستو
لائی ہے اب اڑا کےگئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہے دوستو
پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہے دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہرہے اور ہم ہیں دوستو