ناراضگی رکھئے یا التفات کیجئے
جو کچھ بھی کیجئے وہ مرے ساتھ کیجئے
دی ہے تمہارے حسن نے پھولوں کو دلکشی
اس دل کے ساتھ بھی ذرا دو ہاتھ کیجئے
اب دیکھئے نظروں کا نہیں کوئی بھروسہ
اس حسن پہ کچھ صدقہ و خیرات کیجئے
اے جان حسیں جیت تمہیں دیکھ رہی ہے
برپا مرے وجود پہ اب مات کیجئے
بھر ڈالئے اب روح میں طوفان تمنا
یوں تذکرہ ء گرش حالات کیجئے
مدت ہوئی ہے وجد میں صحرا نہیں دیکھا
اے عشق عیاں اپنی کرامات کیجئے
شاید یہیں سے پھوٹ پڑے ذوق کا زم زم
بہتے ہوئے لہو پہ تجربات کیجئے
ہنگامہ ہائے شوق صنم ناگزیر ہے
چپ کاٹنے لگی ہے کوئی بات کیجئے
میں ڈھونڈنے چلا ہوں گئے وقت کے مہتاب
ہمراہ مرے تاروں کی بارات کیجئے
پنہاں ہے اسی زلف شکن دار میں عالم
میں جینا چاہتا ہوں ابھی رات کیجئے