ہر صبح اک سہانی عید کا حق دے مجھکو
گم دریچوں سے اپنی دید کا حق دے مجھکو
میں تیری ذات کی تکمیل تک میں شامل ہوں
تو اپنی ذات پہ تنقید کا حق دے مجھکو
میں جانتا ہوں کہ منزل میرا نصیب نہیں
بس ذرا شوق کی تمہید کا حق دے مجھکو
آج بھی جسکی حرارت سے مچلتا ہے جنوں
اس حسیں عہد کی تجدید کا حق دے مجھکو
میں حقیقت سے نگاہیں نہیں چرا سکتا
آئینہ خانوں کی تائید کا حق دے مجھکو
لوٹ آنا بھی تو دنیا ہی کی روایت ہے
ہاں تو پھر دائمی امید کا حق دے مجھکو