اس دشتِ لا مکان پہ بادل اتر گیا
میرے چمن کی سرخی و نکہت نکھر گیا
میں بھی اسی کی راہ پہ چل دوں گی ایک دن
پھیلا ہوا جو چار سو خوشبو میں بھر گیا
وہ درد جو کہ روح کو رکھتا ہے مضطرب
وہ میری اس حیات کو کیسے سنور گیا
یہ بے رخی ہے ، ہجر ہے یا ہے ادائے ناز
یہ سلسلے ہیں پیار کے سب کا اثر گیا
اس زندگی کو پھر سے ضرورت ہے پیار کی
اس کی محبتوں کا صنم پھر مکر گیا
میں سنگِ آستاں ہوں تو میرا خیال کر
اپنی انا کو میرے ہی قدموں میں مر گیا
مایوسیوں کی گود میں دم توڑ دوں گی میں
وشمہ وفا کا حوصلہ پھرسے کدھر گیا