اس زندگی کی رہ پر ، شکوے گلے مٹا کر
آئے ہیں ہم تو صاحب، سب کشتیاں جلا کر
کھلنے لگیں گی کلیاں ، اڑنے لگے گی خوشبو
فرصت ملے تو تو بھی خود سے کبھی وفا کر
دریا کی ساری موجیں مناتی ہیں رنگ رلیاں
کرتے ہیں ہم محبت ساحل پہ گیت گا کر
جلتی ہیں تیری یادیں آنکھوں میں جیسے جگنو
راتوں کی کالی شاخیں چہرے سے سب ہٹا کر
خوابوں کی ناؤ دل کے جذیرے سے آ لگی ہے
مل جائیں آج ہم تم ، تو بھی یہی دعا کر
پلکوں پہ نیند کی اب ہوتی نہیں ہے دستک
بیٹھی ہوں کب سے وشمہ خود کو گلے لگا کر