اس زیست کے پیپل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں بھولوں گی جب تم کو تو ڈر کیوں نہیں جاتا
اب بھی ہے ترے ساتھ مری پیار کہانی
یہ زخم محبت کے تو بھر کیوں نہیں جاتا
اب بھی مجھے چاہت کے ستاروں پہ یقیں ہے
پھر اپنی محبت کے میں گھر کیوں نہیں جاتا
اب تک رہی تم سے تو فقط شام کی محفل
پا لوں گی میں جب وقت سحر کیوں نہیں جاتا
مجھ کو ہے مرے بخت کے طائر سے محبت
اڑتے ہوئے اب شوق سفر کیوں نہیں جاتا
دیکھے ہیں بہت میں نے محبت کے کرشمے
اب دیکھنا وشمہ کہ اثر کیوں نہیں جاتا