دھیرے دھیرے سے برستی ھوئ بارش میں کبھی
میں نے دیکھا تھا تجھے تیرے رو برو ھو کر
تو بھی لب بھینچ کے، آنکھوں کے کناروں سے مجھے
دیکھتی تھی کئ ارمان جگا کر دل میں
تیری زلفوں میں پروئے ھوئے ناگینہِ آب
کتنے بیباک ھوئے جاتے تھے چھو کر تجھ کو
جل میں اس آگ کے منظر کو بیاں کیسے کروں
لب پہ ٹھہرے ھوئے قطرے یا بھڑکتے شعلے
شربتی شام کے رنگوں سے مزین آنکھیں
جا بجا جن میں سجے خواب میرے نام کے تھے
تیری بکھری ھوئی سوچیں، تیری زلفیں، تیرا آنچل
تانے بانے کے سرے مجھ سے ھی جا ملتے تھے
اس سے بڑھ کر بھی کوئی ھو گی نہ انمول گھڑی
اس سے زیادہ کی نہ خواھش ھے نہ ارمان کوئی
ہاتھ اٹھتے ھیں تو سوچ میں پڑ جاتا ھوں
میں تجھے مانگوں یا تعبیریں تیرے خوابوں کی