اس قدر یاد ہمیں آتے ہو (گیت)
Poet: UA By: UA, Lahoreجس قدر دور ہوئے جاتے ہو
اس قدر پاس ہوئے جاتے ہو
جس قدر بھول ہمیں جاتے ہو
اس قدر یاد ہمیں آتے ہو
تم سا کوئی نہیں مِلا ہم کو
ہم سا کوئی مِلا ہے کیا تم کو
سچ کہو کیوں ہمیں ستاتے ہو
دل کی باتیں نہیں بتاتے ہو
جس قدر دور ہوئے جاتے ہو
اس قدر پاس ہوئے جاتے ہو
جس قدر بھول ہمیں جاتے ہو
اس قدر یاد ہمیں آتے ہو
دِل لگی چھوڑو دل کی بات کہو
دور تنہائی کرو ساتھ رہو
بے رخی کس لئے جتاتے ہو
اپنے جزبات کیوں چھپاتے ہو
جس قدر دور ہوئے جاتے ہو
اس قدر پاس ہوئے جاتے ہو
جس قدر بھول ہمیں جاتے ہو
اس قدر یاد ہمیں آتے ہو
میری آنکھو میں جھانک کر دیکھو
میرے ساجن ذرا ادھر دیکھو
اپنے سائے سے ہی کتراتے ہو
کس لئے مجھ سے دور جاتے ہو
جس قدر دور ہوئے جاتے ہو
اس قدر پاس ہوئے جاتے ہو
جس قدر بھول ہمیں جاتے ہو
اس قدر یاد ہمیں آتے ہو
مان جاؤ نہ یوں ستاؤ مجھے
کیوں خفا ہو ذرا بتاؤ مجھے
اپنا دامن چھڑائے جاتے ہو
کیوں میرا ساتھ چھوڑ جاتے ہو
جس قدر دور ہوئے جاتے ہو
اس قدر پاس ہوئے جاتے ہو
جس قدر بھول ہمیں جاتے ہو
اس قدر یاد ہمیں آتے ہو
لوٹ آؤ نہ جاؤ میرے پیا
جی نہیں پاؤنگی تمہارے بِنا
میرے دِل کو دکھائے جاتے ہو
کیوں میری جاں جلائے جاتے ہو
جس قدر دور ہوئے جاتے ہو
اس قدر پاس ہوئے جاتے ہو
جس قدر بھول ہمیں جاتے ہو
اس قدر یاد ہمیں آتے ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






