اس وقت تلک زلف وہ تسخیر نہ ہوگی
جب تک کہ سخن میں ترے تاثیر نہ ہوگی
کب عشق میں چپ رہنے سے ملتے ہیں مراتب
گو کارگر اس راہ میں تقریر نہ ہوگی
تصویر تری دیکھوں بہ امید کہ اک روز
تُو سامنے ہوگا تری تصویر نہ ہوگی
جب کیفیتِ جزب نہ ہوگی ترے دل میں
کچھ شعلہ بیانی میں بھی تاثیر نہ ہوگی
پنچھی ہی سہی تنکے جمع کرنے پڑیں گے
بن خواب کے تو خواب کی تعبیر نہ ہوگی
کاغذ پہ قلم سے یوں لکیریں نہ بناؤ
حق بات ہے جز خون کے تحریر نہ ہوگی
روئیں گے وہ تقدیر کو خوناب ہمیشہ
معلوم جنہیں طاقتِ تدبیر نہ ہوگی
یہ سوچ کے لکھتے تھے کہ سمجھے نہ کوئی بات
آسان ہے اب اتنی کہ تفسیر نہ ہوگی
نقاش کرے رنگوں سے گلکاریاں جتنی
نقاشِ ازل کی بنی تصویر نہ ہوگی
خونابہ فشانی ہے یہ، مت شاعری سمجھو
ہر چند کِلک شکل میں شمشیر نہ ہوگی