محبت تو محبت ہے، نہیں پہلی، نہیں دوجی
محبت کی نہیں جاتی، مگر ہونی کو کیا ٹالیں
تمنا سے یا خواہش سے کبھی حاصل نہیں ہوتی
محبت کا قرینہ ہے، کبھی پوچھے نہیں آتی
جب آ جائے یہ مرضی سے تو پھر کوٹھے پہ چڑھ جائے
کرو پھر لاکھ کوشش بھی محبت رُک نہیں سکتی
اسے روکو اگر تو زہر جھٹ سے پھانک لیتی ہے
ہوا کے راستوں پر کوئی پہرہ کیا لگائے گا
کرو کچھ بھی مگر اظہر محبت جھانک لیتی ہے
محبت ہو اگر بار دگر تو اس کو کیا کہئے؟