اس کی آنکھوں سے چھلکتا اک جام بناؤں یاروں
اپنی وادی میں بھی کوئی مےخانہ بناوں یاروں
وہ اک پل کو چھوا اس کا میرے ھاتھ کو
اس پر بھی کوئی فسانہ بناوں یاروں
میں کب سے نشے میں ہوں مجھے ہوش نہیں
مجھے پھر س اک جام اور پلاؤ یاروں
اس کی خوشبو ہے رچی چار سوں میرے
جب سے گیا ہو کے مرے در سے یاروں
کوئی لمحہ میری زندگی میں آئے ایسا
صرف میرا بن ک وہ آئے یاروں
نئی نئی کہانیاں سنا رہا تھا مجھ کو
جو خود اک کہانی بنا بٹھا تھا یاروں
اس کے لبوں کی جنبش تھی یا کلی کا کھلنا
میں تو وہی الجھ کے رہ گئی یاروں
وہ ہی شوخ و چنچل سا لہجہ وہی آوارا مذاجی
کیسے کہہ دوں کہ وہ بدل گیا یاروں