اس کی آنکھوں میں کوئی خواب ہمارا بھی نہیں
اور پلکوں پہ کوئی چاند اتارا بھی نہیں
اتنی وحشت میں بچھڑنے کی گھڑی آ پہنچی
اس نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پکارا بھی نہیں
یہ مرا دل جو عقل مند بنا پھرتا ہے
آج تک اس نے کوئی کام سنوارا بھی نہیں
کون تعبیر نکالے گا مرے مطلب کی
اس کے ملنے کا تو خوابوں میں اشارہ بھی نہیں
اس کی گلیوں میں تو ہم چاند لیے پھرتے تھے
اب تو ہاتھوں میں کوئی ایک ستارہ بھی نہیں
تم سے ملنا تو بہر حال ہمیں ہے لیکن
اس قدر بھیڑ میں یہ ہم کو گوارہ بھی نہیں
جانے کس طور سے کھیلا وہ مرا دشمنِ جاں
زین ہم جیت گئے اور وہ ہارا بھی نہیں