اس کی جھلک کسی دروبام میں نہیں
اس کی باتیں اب لب عام میں نہیں
دکھتا ہے وہ میرے آبگینوں میں
اس کا عکس اب دیدہ تر میں نہیں
چہرہ اپنا نظر نہیں آتا یہاں کسی کو
جیسے آئینہ کسی کے گھر میں نہیں
خاموشی چھا گئی ہے سب کے لبوں پر
لگتا ہے اس گلی میں اب رہتا کوئی نہیں
اک آواز آتی ہے سناٹوں کی دور سے
کوئی قافلہ اب اس راستے پر نہیں
بند ہو گیا ہے کاروبار عشق کا یہاں
سودا محبت کا کسی کے پاس اب نہیں