کوئی فرمان دل کا بھی جاری کروں
اس کی خواہش تھی میں آہ و زاری کروں
کون ہوتا ہے وہ آ کے کاٹیں جڑیں
خون سے جن کی میں آبیاری کروں
قید آنکھوں میں جس کی مرے راز ہیں
کیسے اس شخص سے پردہ داری کروں
دے کی خوشیوں کی ہر ایک اس کو کلی
نام اپنے میں ہر بیقراری کروں
شام ِ ہجرت کا اکثر میں غم بانٹنے
رات ڈھلتے ہی اختر شماری کروں
اس کی نفرت کے بدلے ہے عادت مری
خود پہ وشمہ محبت کو طاری کروں