اس کی غیروں سے ہے پہچان میں مر سکتی ہوں
یہاں چاہت کا ہے فقدان میں مر سکتی ہوں
مجھ کو رہتی ہے تری دید کی خواہش اکثر
تیری خواہش میں مری جان میں مر سکتی ہوں
وصلِ امرت یہ پلا دو نہ مجھے ہونٹوں سے
مجھ پہ کر دو نہ یہ احسان میں مر سکتی ہوں
میں تری لذّتِ گفتار کے صدقے جاؤں
تم بھی توڑو نہ مرا مان میں مر سکتی ہوں
اپنی قربت کی مجھے آج حرارت دے دو
گھر کے باہر ہے زِمستان میں مر سکتی ہوں
ساغرِ زیست مرے ہاتھ میں دے دو وشمہ
شہر کا شہر ہے ویران میں مر سکتی ہوں